“جب ہمارا بیٹا پیدا ہوا تو علی آپریشن تھیٹر میں ہی بے ہوش ہو کر گر گئے تھے۔ کیوں کہ ہمارا بیٹا لندن میں پیدا ہوا تھا اور وہاں کے قانون کے مطابق جب بچے کی پیدائش ہورہی ہو تو شوہر کا بیوی کے ساتھ موجود ہونا لازمی ہے“
یہ کہنا ہے علی احمد بٹ کی اہلیہ فاطمہ خان کا۔ چند دن قبل احمد علی بٹ نے ندا یاسر کے پروگرام میں شرکت کی اور اپنی کم بچوں کی خواہش کے حوالے سے بھی بات کی۔ علی اور ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ بچوں کو صرف پیدا کرنا ہی ایک کام نہیں ہوتا بلکہ انھیں اچھا انسان اور اچھا مسلمان بھی بنانا ہوتا ہے تا کہ وہ کسی قابل ہو کر اچھی زندگی گزاریں۔ اسی وجہ سے ہمیں زیادہ بچوں کی خواہش نہیں ہوئی کیونکہ ہم چاہتے ہیں اپنے بیٹے پر توجہ مرکوز رہے اور اسے اچھا انسان بنائیں۔
کورسز جو باپ کو کرنے لازمی ہیں
بیٹے کی لندن میں پیدائش کے حوالے سے فاطمہ اور علی نے بتایا کہ وہاں ایسا نہیں ہوتا کہ پیدائش کی ذمہ داری صرف ماں پر ڈالی جائے بلکہ مرد کو احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ تمھاری وجہ سے اس حال میں ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مردوں کو باپ بننے اور بیوی کی حمل کے دوران مدد کرنے کے لئے مختلف کورسز بھی کرنے پڑتے ہیں۔
دوبارہ بچوں کی خواہش نہیں ہوئی کیوں کہ:
ان کورسز میں ایمرجنسی کے وقت حاملہ بیوی کو سانس کی مشق کے علاوہ بیوی کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنے اور نومولود کا خیال رکھنے کے بارے میں بھی سکھایا جاتا ہے۔ علی احمد بٹ کے مطابق انھوں نے یہ تمام کورسز کیے تھے۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستان میں ڈلیوری کے وقت باپ موجود نہیں ہوتے اس لئے انھیں احساس نہیں ہوتا کہ یہ کتنا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے لیکن علی وہاں تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں دوبارہ بچوں کی خواہش نہیں ہوئی۔
لیکن پاکستان میں ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا پاکستان میں بس بچوں کی تعداد بڑھانے کے چکر میں لوگ دیکھتے ہی نہیں کہ پالیں گے کیسے پرورش بھی کرنی ہوتی ہے اس کے علاوہ تعلیم تربیت اس سب کو کوئی دیکھتا ہی نہیں جوکہ یہ ایک دکھ کی بات ہے اور قابلِ غور ہے