شاہ محمود قریشی، جمشید چیمہ اور مسرت چیمہ کو اڈیالہ جیل میں 3 ایم پی او کے تحت نظربندکیا گیا ہے۔پی ٹی آئی رہنماؤں کی نظربندی کے احکامات ڈی سی راولپنڈی حسن وقار چیمہ نے جاری کیے۔خیال رہےکہ گزشتہ روز شاہ محمود قریشی کو اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر انڈر ٹیکنگ جمع کرانے پر شاہ محمود قریشی کو اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ان کے علاوہ مسرت جمشید چیمہ اور ان کے شوہر جمشید چیمہ کو بھی رہائی کے بعد پنجاب پولیس نےاڈیالہ جیل کےباہر سےگرفتار کرلیا تھا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ 12 روز تک میری گرفتاری، اغوا اور رہائی کے دوران میری صحت کے حوالے سے اور میری بیٹی ایمان مزاری کو جس صورتحال اور آزمائش سے گزرنا پڑا، میں نے جیل جاتے ہوئے اس کی وڈیو بھی دیکھی جب میں تیسری مرتبہ جیل جارہی تھی تو وہ اتنا رو رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں متحرک سیاست چھوڑ رہی ہوں، میں آج سے پی ٹی آئی یا کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں رہوں گی، میرے بچے، میری والدہ اور میری صحت میری ترجیح ہیں، اب میں ان پر زیادہ توجہ دوں گی۔نیویارک ٹائمز کے پاکستان میں نمائندے سلمان مسعود نے کہا کہ شیریں مزاری کا فیصلہ واضح طور پر جبر اور دباؤ کے تحت تھا۔
سینئر صحافی محمد مالک نے کہا کہ جس طرح سے شیریں مزاری کو اپنی پارٹی اور سیاست چھوڑنے پر ’مجبور‘ کیا گیا، اس پر دکھ ہوا۔انہوں نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ شیریں مزاری نے کچھ کہے بغیر حقیقت میں بہت کچھ کہا جب انہوں نے اپنی بیٹی کی 12 دن کی حالت زار کو اپنی ترجیحات کو درست کرنے کی بنیادی وجہ قرار دیا، اصل سوال یہ ہے کہ ان کی بیٹی کو ان تمام مصائب سے کیوں گزرنا پڑا۔
“انہوں نے کہا کہ کیا ان کا پارٹی چھوڑنا ان کی پارٹی کا نقصان ہے؟ ہاں ایک بڑا نقصن ہے لیکن ان کا یہ فیصلہ قومی سیاست اور پاکستان میں انسانی حقوق کی تحریک کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیاض الحسن چوہان نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کا میڈیا ایڈوائزر تھا، 9 مئی کو جو واقعات ہوئے میں اس پر دکھی ہوں، فوج کے ساتھ محبت ، میری ذات اور میرے خاندان کے اندر رچی بسی ہوئی ہے، پاکستان کی خیر مقدم کرتا رہوں گا، ملک کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کرتا رہوں گا۔