زیادہ تر متاثرہ خواتین خود پر یقین نہ کیے جانے، دفاتر میں تعلقات کی خرابی یا کیریئر کو نقصان پہنچنے کے خدشات کے باعث اپنے ساتھ پیش آئے واقعات کی شکایت نہیں کرتیں، تازہ سروےٹی یو سی کی جانب سے کیے گئے حالیہ سروے میں مجموعی طور پرتقریباً ہر پانچ میں سے تین خواتین (58فیصد) کو کام کی جگہ پر ہراساں کیے جانے کا تجربہ ہوا ہے۔ 62فیصد متاثرہ خواتین کی عمریں 25 سے 34 سال کے درمیان ہیں۔
زیادہ تر واقعات میں متاثرہ خواتین الگ تھلگ نہیں تھیں۔57فیصد خواتین نے کہاکہ انہیں دفاتر میں 3 سے زیادہ مرتبہ غنڈہ گردی کا سامنا رہا ہے جبکہ تقریباً ہر 5میں سے 2 سے زیادہ (43فیصد) خواتین نے جنسی ہراسانی کے کم ازکم 3واقعات کی شکایت کی۔ٹی یو سی کے جنرل سکریٹری پال نوواک نے کہاکہ”ہر عورت کو جنسی ہراسانی سے محفوظ رہنا چاہیے لیکن ہر روز ہم اپنے کام کی جگہوں پربڑی حد تک جنسی ہراسانی کی کہانیاں سنتے ہیں“۔
انہوں نے کہاکہ” ہم بہت ساری خواتین کو جانتے ہیں جو ریٹیل ورکرز اور جی پی ریسپشنسٹ جیسے عوامی شعبوں میں کام کرتی ہیں اور صارفین و مریضوں کی طرف سے باقاعدگی سے بدسلوکی کا شکار ہوتی ہیں، جدیددور میں کام کی جگہوں میں جنسی طور پر ہراساں کرنے اور دھونس دھمکی کی کوئی گنجائش نہیں ہے“۔
ٹی یو سی کے سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ حالیہ پانچ واقعات میں سے دو میں مرتکب عملے کے علاوہ کوئی تیسر ا فریق ملوث پایاگیا۔ سروے کے مطابق جنسی ہراسانی، غنڈہ گردی یا بدزبانی کے زیادہ تر )71فیصد)واقعات کام کے احاطے میں ہوتے ہیں تاہم 12 فیصد واقعات فون یا ٹیکسٹ میسج جبکہ یا 8فیصد آن لائن، ای میل، سوشل میڈیا یا ورچوئل میٹنگز کے دوران پیش آتے ہیں ۔
جنسی ہراسانی سے متاثرہ خواتین میں سے ایک تہائی سے بھی کم نے اپنے آجر کو واقعات سے آگاہ کیا ۔اسی طرح پانچ میں سے صرف 2 خواتین(44فیصد) ہی اپنے ساتھ کی گئی غنڈہ گردی کی مالکان کو شکایت کرسکیں جبکہ بدزبانی کا سامنا کرنے والی 50فیصد خواتین نے اپنے مالکان کو اس سے آگاہ کیا ۔
اپنے ساتھ پیش آئے واقعات کی شکایات نہ کرنے والی 39فیصد خواتین کا خیال تھا کہ ان پر یقین نہیں کیا جائے یا انہیں سنجیدہ نہیں لیاجائے گا جبکہ 37 فیصد کا خیال تھا کہ شکایت کی صورت میں دفاتر میں ان کے تعلقات خراب ہوں گے اور 25فیصد کو خدشہ تھا کہ شکایت کی صورت میں ان کے کیریئر پر منفی اثر پڑےگا۔