بشکریہ: عامر ہاشم خاکوانی
اسد عمر کی پریس کانفرنس پی ٹی ائی کے دیگر جانے والے لیڈروں کے مقابلے میں زیادہ گرہس فل اور بیلنس تھی۔انہوں نے سیکرٹری جنرل شپ چھوڑی مگر پارٹی میں رہنے کا کہا۔دیگر لیڈروں کے بجائے پریس کو فیس کیا، سوال لئے اور بعض تند سوالات کا جواب بھی دیا۔بار بار سوال کے باوجود عمران خان کے خلاف بات نہیں کی۔
وہ چونکہ نو مئی کی مزمت کر چکے تھے، پارٹی کا اہم تنظیمی عہدہ چھوڑ چکے تھے، اس کے منطقی نتیجے میں انہیں عمران خان کی پالیسی پر تنقید کرنا تھی، مگر اسد عمر نے بچاو کا راستہ نکالتے ہوئے یہ کہا کہ عوام فیصلہ کریں گے کہ پالیسی غلط تھی یا درست۔
اسد عمر واحد انصافین لیڈر ہیں جنہوں نے صرف اپنی بات نہیں کی بلکہ گرفتار پارٹی کارکنوں کی بھی بات کی جو کہ قابل تحسین امر ہے۔ اس کے مقابلے میں فواد چودھری کا ٹوئیٹ نہایت خودغرضانہ تھا۔ انہوں نے صرف اپنے اپ کو دیکھااور پارٹی یا کارکنوں کے لئے رسمی جملہ بھی نہیں کہا۔اسد عمر کارویہ بہتر اور گریس فل رہا۔ثابت ہوا کہ پی ٹی ائی کی اصل Breed یا پیداوار زیادہ بہتر اور باوقار ہے۔
البتہ رپورٹروں کا رویہ نہایت فضول، پرلے درجےکا جاہلانہ اور امیچور تھا۔چھوٹے بچوں کی طرح رپورٹر شور مچاتے رہے اور تماشا ہی بنوایا۔ کیا انہیں معمولی سی ٹریننگ بھی نہیں کہ کیسے سوال پوچھنے ہیں ؟ہر کوئی اپنے نمبر بنانے کے بجائے سلیقے سے ایک ایک کر کے بات کرنے دیتا تو کئی مزید سوالات بھی ہوسکتے تھے ویری پور پرفارمنس۔
مجھے دیکھ کر شدید کوفت ہو رہی تھی کہ اسد عمر اہم ترین بات کہنا چاہ رہا ہے اور کوئی اس کی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔ اسد عمر یہ وضاحت کرنا چاہ رہے تھے کہ پارٹی نہیں چھوڑی، عہدے چھوڑے ہیں،مگر یہ بات کہنے میں اسے شور کی وجہ سے دس منٹ لگ گئے۔نیشنل پریس کلب اسلام اباد کی انتظامیہ کو رپورٹرز کے لئے ٹریننگ سیشن کرانے چاہئیں،خاص کر وی لاگرز اور یو ٹیوبرز کے لئے۔ اینی ویز اب صورتحال واضح ہوتی جا رہی ہے۔ اگلا بڑا نام کے پی سے ہوگا یا شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس سامنے ائے گی؟